کابل کے ایک مصروف پل تلے گند کے ڈھیر اور گندے پانی کے بیچ منشیات سے متاثرہ بے گھر مردوں کی ایک کمیونٹی رہتی ہے۔
48 سالہ خداداد کہتے ہیں کہ یہ کسی انسان کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ تو کسی کتے کے لیے بھی موزوں جگہ نہیں ہے۔
خداداد گذشتہ پانچ سالوں سے ہیروئن اور کرسٹل میتھ کی لت میں مبتلا ہیں۔ ہیروئن تو ایک عرصے سے کابل میں ایک مسئلے کا باعث رہی ہے لیکن اب اکثر افراد میتھ کا استعمال کرنے لگے ہیں جو ہیروئن کے مقابلے میں سستی تو ہے لیکن اتنی ہی خطرناک بھی ہے۔
خداداد کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے آغاز میں منشیات کا استعمال شروع کیا تھا تو میتھ اتنی عام نہیں تھی، لیکن گذشتہ چند سالوں کے دوران زیادہ سے زیادہ لوگوں نے اس کا استعمال شروع کر دیا ہے۔‘
گذشتہ منگل کو شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغانستان دنیا میں کرسٹل میتھ کی پیداوار کے اعتبار سے نمایاں مقام حاصل کر رہا ہے۔ ملک کی پوست کی فصلیں پہلے ہی دنیا بھر میں ہیروئن کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور اب مانیٹرنگ سینٹر فار ڈرگز اینڈ ڈرگز ایڈکشن (ای ایم سی ڈی ڈی اے) کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کرسٹل میتھ بھی ملک کی اتنی ہی بڑی صنعت بن جائے گی۔
اس کی پیداوار میں نمایاں اضافہ اس وقت ہوا جب منشیات کی سمگلنگ کرنے والوں نے دریافت کیا کہ افغانستان کے متعدد حصوں میں جھاڑیوں کے طور پر اگنے والے جنگلی پودے ایفیڈرا سے میتھ کا ایک انتہائی اہم جزو یعنی ایفیڈرین بنتا ہے۔
افغانستان کی منشیات کے صنعت کے ماہر اور اس رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر ڈیوڈ مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ ’اس بات کے احساس نے کایا ہی پلٹ دی کہ پہاڑوں پر اگنے والا ایک جنگلی پودا آئس بنانے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔‘